ماتم کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

ماتم کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟


مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے، واویلا کرنا، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا، کپڑے پھاڑنا، بدن کو زخمی کرنا، نوحہ و جزع فزع کرنا، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہوکر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون
اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں (سورۃ البقرہ آیت 154)
ماتم تو ہے ہی حرام، تین دن سے زیادہ
سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے
حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز)
امام حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا
کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے
(من لایحضرہ الفقیہ ج 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے۔
مسلمانوں کا شرف یہ ہے کہ صابر اور شاکر ہو
خیال و فعل میں حق ہی کا شاغل اور ذاکر ہو
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ زینب بنت رسول  اﷲﷺ فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے انہیں کوڑے سے مارنے کا ارادہ کیا تو انہیں حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے ہٹایا اور فرمایا: اے عمر چھوڑو بھی پھر فرمایا: اے عورتوں شیطانی آواز سے پرہیز کرنا پھر فرمایا:
مہما یکن من القلب والعین فمن اﷲ عزوجل ومن الرحمۃ ومہما کان من الید واللسان فمن الشیطان
جس غم کا اظہار آنکھ اور دل سے ہو، وہ اﷲ کی طرف سے ہے اور رحمت ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو، وہ شیطان کی طرف سے ہے (مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت 1748) احمد حدیث 3093
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
لیس منا من ضرب الخد وشق الحیوب ودعا بدعوی الجاہلیۃ
وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے، گریبان پھاڑے اور ایام جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے (بخاری حدیث 1297، مسلم حدیث 103، مشکوٰۃ حدیث 1725، کتاب الجنائز باب البکائ)
یعنی میت وغیرہ پر منہ پیٹنے، کپڑے پھاڑنے، رب تعالیٰ کی شکایت، بے صبر کی بکواس کرنے والی ہماری جماعت یا ہمارے طریقہ والوں سے نہیں ہے۔ یہ کام حرام ہیں۔ ان کاکرنے والا سخت مجرم۔ یہ عام میت کا حکم ہے لیکن  شہید تو بحکم قرآن زندہ ہیں، انہیں پیٹنا تو اور زیادہ جہالت ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
میری امت میں زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں ہیں جن کولوگ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسرے شخص کو نسب کا طعنہ دینا، ستاروں کو بارش کا سبب جاننا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن گندھک اور جرب کی قمیص پہنائی جائے گی (مسلم حدیث 934، مشکوٰۃ حدیث 1727، کتاب الجنائز باب البکائ) (شیعوں کی معتبر کتاب، حیات القلوب، ملا باقر مجلسی جلد 2، ص 677)
میت کے سچے اوصاف بیان کرنا ندبہ ہے اور اس کے جھوٹے بیان کرنا نوحہ ہے۔ ندبہ جائز ہے نوحہ حرام ہے۔ گندھک میں آگ بہت جلد لگتی ہے اور سخت گرم بھی ہوتی ہے اور جرب وہ کپڑا ہے جو سخت خارش میں پہنایا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے نائحہ پر اس دن خارش کا عذاب مسلط ہوگا کیونکہ وہ نوحہ کرکے لوگوں کے دل مجروح کرتی تھی تو قیامت کے دن اسے خارش سے زخمی کیا جائے گا (مراۃ جلد 2، ص 503)
دو کفریہ کام
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
اثنتان فی الناس ہما بہم کفر: الطعن فی النسب والنیاحۃ علی المیت
لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں، کسی کے نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا (مسلم حدیث 67، کتاب الایمان)
اس حدیث میں میت پر نوحہ کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ حلال سمجھ کر میت پر نوحہ کرنا کفر ہے اور اگر اس کام کو برا سمجھ کر کیا جائے تو یہ حرام ہے۔
دو ملعون آوازیں
حضرت انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
صوتان ملعونان فی الدنیا والاخرۃ مزمار عند نعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ
دو آوازوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے۔ نعمت کے وقت گانا بجانا اور مصیبت کیوقت چلا کر آواز بلند کرنا یعنی نوحہ اور ماتم وغیرہ (بزار حدیث 795، ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5179)
Oldest